اقبال کے مطابق کسی لیڈر یعنی "میر کارواں" کے رخت سفر کے لئے صرف تین ضروری خصوصیات ہیں: نگاہ بلند سخن دلنواز و جاں پرسوز، جن کے زریعے ایک راہنما اپنے پیچھے چلنے والوں کو جوڑ کر رکھتا ہے، ان کو منتشر نہیں ہونے دیتا:
نگاہ بلند سخن، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے - اقبال
مگر بدقسمتی سے حقیقت سے کوسوں دور جزبات برانگیختہ کر کے ہیرو بنانے والی سوشل میڈیا کے زریعے ایک ایسے شخص کو راہنمائی مل گئی جو ببانگ دہن اپنے کو "یوٹرن لیڈر" کہتا ہے- جس نے پچھلے چار سال میں اپنے کردار سے یہ واضح کر دیا کہ وہ اقبال کے بتائے ہوئے رخت سفر میں سے ہر ایک خصوصیت کا متضاد ہے:

(2) سخن دلنواز vs گالم گلوچ، جھوٹ، تزلیل، تضحیک، الزامات، بہتان، کی بنیاد پر پراپگینڈا اور جھوٹ برگیڈ کو پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کے سورماؤں نے ملک میں برداشت اور ریشنل ڈبیٹ کو ختم کر دیا- بجائے دل میں گھر کرنے والی گفتگو کے عامیانہ اور گلی کے غنڈوں کی طرح دھمکیوں پر انحصار ہے- ان دھمکیوں سے اپنے اور پرائے دونوں ان کے ہدف پر ہیں-
(3) جاں پر سوز ( empathy) vs احسان فراموشی؛ ہر دوست، سلیکٹر، میڈیا سپورٹرز، ووٹر کے لئے خطرے ناک:
جو شخص اپنے دیرینہ جگری دوست، محرم راز اور ابتلاء نعیم الحق کے 2020 میں کراچی جنازہ میں توہم پرستی کی وجہ سے شرکت نہیں کرتا، جو محسن بیگ، جہانگیر ترین وغیرہ کے احسانات بھلا دیتا ہے اور من گھڑت الزامات لگا کر گرفتار کر لیتا ہے اور محسنوں کو جانور کہتا ہے وہ ان الیکٹیبلز کو کہاں خاطر میں لائے گا جو چڑھتے سورج کے پجاری ہیں اور جن کے کہنے پر پی ٹی آئی میں آئے ان ہی کے اشارہ پر جا رہے ہیں-
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں- قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment