Friday, September 29, 2023

Alif Laila Series of Ferozesons and my love for books

 مجھے سب ہے یاد زرا زرا-- تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کس کو یاد ہے ان 6 کتب کی قدر مشترک؟
ملکہ شہرزاد
حجام اور قزاق
چین کی شہزادی
گنجا لنگور
سندباد کے سات سفر
معروف موچی
1970 کی دہائی میں یہ کتب میری اسلام آباد میں "ملت لائبریری" کا حصہ تھیں جن میں بچوں کی فیروز سنز کی کتب کے علاوہ ابن صفی، این صفی، مظہر کلیم وغیرہ کی کتب تھیں
کل فیروز سنز نزد تین تلوار جانے کا اتفاق ہوا، تو یہ سیٹ خرید لیا--
کیا زبوں حالی کا شکار نظر آیا-- فیروز صاحب کے بچوں کی اگلی نسل کیلئے فکر فردا کا مقام
فیروز سنز کراچی کا پتہ:
تین تلوار سے دو تلوار کی طرف جاتے ہوئے الٹے ہاتھ پر شیل کے پیٹرول پمپ کے سامنے کھڑے ہوں تو سیدھے ہاتھ والے کونے کے سامنے کمرشل کے فرسٹ فلور پر


Tarzan and My Language Acquisition

ٹارزن کے جنگ اخبار میں روز شائع ہونے والے تصویری سلسلہ سے میں نے تقریباً 5-6 سال کی عمر میں اخبار پڑھنا شروع کیا-- یہ 1967-68 کا زمانہ تھا-- روز صبح امی، ابا یا بڑی بہنوں سے اصرار ہوتا تھا کہ وہ پڑھ کر سنائیں، اور شروع میں دو چار دفعہ ہر ایک نے سنایا-- چونکہ ہر کوئی اکثر اپنے کاموں میں مصروف ہوتا تھا، اور کہتا تھا بھئی خود پڑھ لو-- چنانچہ جھنجلا کر خود ہی پڑھنا شروع کر دیا-- اس کے بعد یہ چاروں فیروز سنز کی کتابیں IMSG سپر مارکیٹ اسلامآباد کی لائبریری سے لے کر پڑھیں-- بعد ازاں ٹارزن کی ان چار کتب کا پورا سیٹ خریدا اور بیسیوں دفعہ پڑھ ڈالا-- فیروز سنز کی ایک کتاب اسکول سے واپسی کے بعد کھانے کی میز پر شروع کرتے تھے اور وہ کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مار ہوتی تھی--- ہماری imagination تخیل اور ایڈونچر کی آبیاری ان کتب سے شروع ہوئیں-- بعد ازاں اوریجنل بھی پڑھنے کا موقع ملا--
یہ چار کتب فیروزسنز واقع نزد تین تلوار شیل پٹرول پمپ سے خریدیں اس پیر کو خریدیں تھیں--

Ikram Hyder Naqshbandi Naatia Kalam in Different Languages

میرے دادا کے والد سید اکرام حیدر (1854 - 1942) کی غالباً 1920 کی دہائی کا لکھا ہوا نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں کلام، مختلف زبانوں میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بزبان عربی

للہ الحمد علی راسنا   ار سلت نبی

من نبی اقبل احکام شرقی غربی

کان امی لقد ا عالم و علم العجبی

قال واللہ لک؟ رحمت احمد ربی

سیدی مرشدی مولائے محمد عربی

مرحبا سرور عالم تو عجب خوش لقبی

Sunday, September 10, 2023

Doctrine of Necessity Molvi Tamizuddin Khan Case Judgment by Justic Munir Federal Court PLD 1955

[pdf to word auto converted document. Needs editing proof reading]

P L D 1955 FEDERAL COURT 240

(Appellate Jurisdiction)
Present : Muhammad Munir, C. J., A. S. M. Akram, A. R. Cornelius, Muhammad Sharif and S. A. Rahman, JJ

(1) FEDERATION OF PAKISTAN,
(2) MUHAMMAD ALI,
(3) CHAUDHRI MUHAMMAD ALI,
(4) MAJOR GENERAL ISKANDER MIRZA,
(5)M. A. H. ISPAHANI,
(6) DR. A. M. MALIK,
(7) DR. KHAN SAHIB
(8) GENERAL MUHAMMAD AYUB KHAN, (9) GHYAS-UD-DIN PAIHAN AND
(l0) MIR GHULAM ALI TALPUR 
Appellants

versus

Moulvi TAMIZUDDIN KHAN-Respondents Constitutional Civil Appeal No. 1 of 1955, decided in Pakistan v, April 1955.

Saturday, August 5, 2023

Remembering Feisal Rahimtoola and Conflicting Perspectives

Remembering Feisal Rahimtoola who taught us Principles of Management at IBA, Karachi in 1985 in my first MBA semester. His energetic style of teaching was distinctively unique while pacing from left to right moving from front to back and front, raising questions and answering the questions with good humor, while thinking aloud and exploring all the possible perspectives.
He left us a couple of days ago. Dust though art, To dust though returnest. We are from Him and to Him we return. 

Saturday, April 29, 2023

Preserving Old Handwritten Bound Manuscripts-Deewan-e-Baqa by Shah Abdul Ghafoor Manikpuri 1854-1930

This post describes how I am preserving the old handwritten poetic manuscripts written around 1880-1930. They had come to me in a bound volume as seen in the picture below. The binding was labeled Deewan-e-Baqa. Baqa being the poetic name, takhalus, of Shah Abdul Ghafoor Manikpuri. Baqa is used in several ghazal and poems in this volume. The experience of Archival of old manuscripts has taught me to become a "heritage detective". The detective is pouring over these old handwritten poetic manuscripts trying to decipher the old hand writing, to find the links and clues spread in these manuscripts, to identify the years when they were written, to identify different handwritings, to identify the links between the different types of cotent pages that were collected in this bound volume, to understand the history of how these pages got collected in this binding which was done some 30-40 years later, to understand the chain of transmittal and weave a credible story around the discovered artifacts. 

The next stage is the preservation in protector sheets of these old pages, sending them for scanning, typing and transcription followed by editing and proof reading. Then would come the stage of understanding of the contents, and connecting the contents with the social history of that time, and connecting them with the relevance of our times. This experience reminds me of how archeologists discover, date, investigate, link and try to understand the history of old times by connecting them with different related artificats of that time and the artifacts connected with that time and place. 

دیوان بقا از مولوی شاہ محمد عبدالغفور المانکپوری، ضلع پرتاب گڑہ

Tuesday, April 18, 2023

Rauf Momani and Great Memories of a Lively Lady

Rauf Momani and Great Memories of a Lively Lady

On 12th of April, 2023, Mrs Parveen Rauf Momani, my mother's brother's wife left this world to meet her creator. Inna lillah e wa inna ilaihi rajioon. May Allah give her the best of abodes in the hereafter. Aameen. 



Rauf Mamoo and Rauf Momani (1960)

How families Used to Spend Eid Days

How Eid Days were spent:

جب ہم 1980 میں کراچی آئے

تو عرفان بھائی کے ساتھ موٹر سائکل پر میں عید بقر عید سب سے ملنے جاتے- ابا جان امی ہم کو خاسص تاکید کے ساتھ بھیجتے- عرفان بھائی اپنے دوست سے موٹر سائکل ایک دن کے لئے لاتے- چلانا بھی نیا سیکھا تھا

ہم فیڈرل بی ایریا غفیرا آپا کے گھر سے شروع کرتے پھر خلیل بھائی ، ہارون خان، فریدا ،آپا پی ٹی آپا عثمان چچا ،بھیّن بھائی( لقمان چچا کے بیٹے)پاپوش میں بڑے عثمان چچا(اوصاف بھائی کے ماموں)یاسین چچا، بھائی ظہیر الحق،سعید حیدر، سیّد پھپا جمشید روڈ،بڑی خالہ جان بہادرآباد

پھر واپس گھر اس وقت کسی نے کہا تھا کہ بھائی لقمان اور آپا حسنہ آئیں نہ آئیں لوگ ان سے ملنے جاتے تھے کیونکہ وہ بڑے تھے مگر اب انکےبچے دس دفعہ آئیں تو کوئی ایک دفعہ انکے گھر جائے گا اور مجھے یہ بات ہمیشہ یاد رہتی ہے-

اسی لئے جب میں مکہ سے آتی تھی تو رینٹ کار سے کر ایک دن کے لیے لے کر سب سے ملنے جاتی - زہیرا آپا کے ساتھ- لانڈھی سے ناظم آباد تک- ملیر بھی- کیونکہ ہم امی کے ساتھ بھی جاتے تھے

Discovery and Rememberances of a 1951 Journey via Ship from Karachi to London onwards to Brazil

1991-11-09.  This photo is just the start of the journey to Brazil whose vivid description and experiences are captured in the following letter by Good Beti to Nice Beti

Tuesday, March 14, 2023

Fun of Aurengzeb's Piety and Inferiority Complex

"اورنگ زیب نے کوئی نماز اور کوئی بھائی نہیں چھوڑا" یوسفی صاحب مزاح نگار تھے، کوئی تاریخ دان نہیں تھے- ان کے اِس "مزاح" کو پڑھے لکھے عقلمند  اپنی "تاریخ دانی" کی معراج سمجھتے ہیں اور اپنی غلامانہ زہنیت اور احساس کمتری کا شکار ہونے کا اظہار کرتے ہیں! 
اُس زمانے میں دنیا کے کسی ایسے بادشاہ کا نام بتائیے جس نے 20-30 سال حکومت کی ہو اور اپنے بھائی یا قریبی عزیز کو نہ قتل کیا ہو- بادشاہت کی تاریخ کے ہزاروں سال میں محلاتی سازشوں میں succession اور گدی قائم رکھنے کا طریقہ اکثر سازشی قتل ہی ہوتا تھا- برطانیہ، اسپین، فرانس، ولندیزی، چین، جاپان، رومن، ایرانی ترکی کی بادشاہتوں کی تاریخ دیکھ لیں- سعودی عرب کی آج کی بادشاہت دیکھ لیں-
الیکشنز کے زریعے حکومت کی تبدیلی پچھلے دو سو سال سے کم کی کہانی ہے- تاریخ کا مطالعہ کبھی آج کل کی عینک لگا کر نہیں کیا جاتا- جس زمانے کو دیکھا جاتا ہے اس کو اس ہی زمانے کے اطوار و روایات کی نظر میں دیکھا جاتا ہے- آج کل کی sensibilities اور prejudices کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا- 
پاکستان میں "تبدیلی" آج بھی محلاتی سازشوں سے آتی ہے قائداعظم کی ایمبولینس اور لیاقت علیخان کی گولی سے لیکر آج وقار سیٹھ تک کتنے قتل ہونے ہیں اور کتنے ٹرمنیٹ ہوئے ہیں- ع خ کا کل کا واویلہ دیکھ لیں-
اسلامی تاریخ اور دنیا کی تاریخ سے نا بلد لوگوں کیلئے:
جنگ بدر کے قیدیوں کے ساتھ سلوک پر قرآن کی آیات پڑھی ہیں؟ دشمن کو کیوں قتل کیا جاتا تھا؟
1857 کے غدر کے بعد انگریزوں نے کتنے دشمنوں کو پھانسی دی اور کتنوں کو توپوں سے باندھ کر گولوں سے اڑایا تھا-
"مہزب" امریکیوں نے ریڈ انڈینز، ویتنام، عراق، افغانستان میں دشمنوں کا کیا حشر کیا

Sociology of Mail Delivery in villages

انٹرنیٹ سے پہلے خطوط کے زمانے کی طرز معاشرت  شہروں میں کیا تھی (امریکہ سے میرے خطوط) ؟ 
نیچے گاؤں کی طرز معاشرت کا بہت بہترین نقشہ ہے
============
گاؤں کے خط، خیریت، بری خبر، ڈاکیہ، معاشرت
از محمود زیدی
دوستو، اپنے گاؤں میں دینو چاچا کے نام سے مشہور  دین محمد صاحب آج اسی برس کے ہوگئے ۔۔۔ 
یہ میرے مسجد کے ان بارہ ساتھیوں میں سے ایک ہیں ۔۔۔ جو ہر روز صبح فجر کے بعد باغ کی سیر کیلئے جاتے ہیں۔۔ باغ کی سیر کے بعد ہم تمام لوگ نزدیکی بنچوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔ اس سے ایک دوسرے کی خیریت بھی معلوم ہوجاتی ہے اور ادھر بریگیڈیئر سلمان رضا صاحب کی حالات حاضرہ اور حامد قدوائی صاحب کی علمی و ادبی گفتگو سننے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔۔۔۔ بیچ بیچ میں شاہد جمیل کے 'انور مقصودی' جملے بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔  بارہ افراد کے اس حلقے میں شاہد جمیل سب سے کم عمر یعنی پینتالیس سال کا ہے اور دین محمد صاحب ماشاءاللہ سب سے عمر رسیدہ ہیں ۔۔۔۔ 
شاہد کی زبانی علم ہوا کہ آج دین محمد صاحب کی سالگرہ کا دن ہے اور ساتھ ہی اس نے حلوہ پوری کے ناشتے اور اس کے بل کی ادائیگی سلمان رضا صاحب کے کھاتے سے ادا کرنے کی خبر بھی سنادی۔۔۔ سلمان رضا صاحب نے مصنوعی خفگی سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے یہ ذمہ داری قبول کرلی۔۔۔۔ 
ہم نزدیکی کمرشل ایریا کے فٹ پاتھ پر رکھی کرسیوں پر جا کے بیٹھ گئے۔۔۔۔۔ ہم سب خوش گپیوں میں مگن تھے کہ مجھے خیال آیا کہ دین محمد صاحب تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص ہیں کیوں نہ ان کی زندگی کے تجربات سنے جائیں۔۔۔۔ سب نے میری تجویز سے اتفاق کیا  اور دین محمد صاحب کی جانب دیکھنے لگے ۔۔۔  
دین محمد صاحب جو کہ ایک خاموش طبع شخص ہیں کچھ دیر سوچوں میں گم رہے ۔۔۔ پھر بولے میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں، تین سال کی عمر میں والد کے سایہ سے محروم ہوگیا ۔۔۔۔ والدہ نے پالا پوسا ۔۔۔۔ میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی جو اس زمانے کے حساب سے اعلیٰ تعلیم سمجھی جاتی تھی۔۔۔ میرے گاؤں کا اسکول پرائمری تک تھا ، چھٹی جماعت میں داخلے کیلئے مجھے  نزدیکی گاؤں میں خالہ کے گھر بھیج دیا گیا۔۔۔۔ اٹھارہ سال کی عمر میں مجھے محکمہ ڈاک میں بطور ڈاکیہ ملازمت مل گئی ۔۔۔۔ اسی سال میری شادی بھی ہوگئی ۔۔۔ والدہ کی خواہش تھی کہ میرا تبادلہ میرے گاؤں میں ہی ہوجائے الله تعالیٰ نے ان کی سن لی اور یوں میں اپنے گاؤں واپس چلا آیا۔۔۔۔ اگلے تین برسوں ميں الله تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نواز دیا۔۔۔ والدہ کیلئے پوتے بہت بڑی نعمت تھے وہ ہر وقت ان میں لگی رہتیں ۔۔۔۔۔ 
زندگی بڑی پرسکون گذرنے لگی۔۔۔ اس وقت میرے گاؤں کی کل آبادی مشکل سے دو ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔۔۔۔ سارا دن میں بمشکل چار سے پانچ خطوط آتے ۔۔۔ اس چھوٹے سے گاؤں میں یہ پانچ خط وصول کنندہ تک پہچانے میں مجھے صبح سے شام ہوجاتی۔۔۔۔ آپ لوگ شاید حیران ہوں گے مگر جو لوگ دیہاتی زندگی سے واقف ہیں انہیں علم ہے کہ ڈاکیہ خط لے کر جس کے گھر بھی پہنچتا ہے اسے لسی پانی کے بغیر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔۔۔۔ اسے خط کھول کر سنانا بھی پڑتا ہے۔۔۔  سارا گھر ایک جگہ بیٹھ کر شوق سے یہ خط سنتا ہے۔۔  بعض مرتبہ تو بڑی بوڑھیوں کو یہ خط دو سے تین بار بھی سنانا پڑجاتا ہے ۔۔۔۔۔ 
میں نے چالیس برس نوکری کی اور پورے چالیس برس یہی معمول رہا۔۔۔۔ لوگ ملازمت کے سلسلے میں باہر جاتے۔۔۔  وہاں سے خطوط بھیجتے ، نوجوان پڑھائی کیلئے جاتے تو ان کے خطوط آتے، لوگ علاج کیلئے شہر جاتے تو وہاں سے ان کی بیماری یا صحتیابی کی اطلاع آتی۔۔۔ خوشی کی خبر پر لوگ مجھے گلے لگ لگ کے میرا منہ میٹھا کراتے، غم کی خبر پر سب سے پہلے میرا ہی کندھا ان کو میسّر ہوتا۔۔۔۔۔ میں پورے گاؤں کا محرم راز تھا۔۔۔ کسی گھر کی کوئی بات ایسی نہ تھی جو مجھ سے چھپی رہتی۔۔۔
گاؤں کا کوئی شخص ایسا نہ تھا جسے میں نہ جانتا ہوں ۔۔۔ لوگ خط سن کر مجھ سے مشورہ کرتے اور پھر مجھ سے ہی جواب لکھواتے ۔۔۔۔۔ہم سب خاموشی کے ساتھ دین محمد صاحب کی یہ عام سی گفتگو سن رہے تھے کہ اچانک وہ کچھ رنجیدہ ہوگئے ۔۔۔۔۔
پھر بولے ایک بار خالہ رشیدہ کے بیٹے صادق کا خط آیا ان دنوں وہ کویت میں ملازمت کررہا تھا۔۔۔۔ میں نے خط تھیلے میں رکھ لیا۔۔۔ میرا ارادہ تھا کہ یہ خط سب سے آخر میں پہنچاؤں گا ایک تو میرا گھر خالہ کے گھر سے نزدیک تھا دوسرے خالہ صادق کے ہر خط کو دو سے تین بار سنتی تھیں۔۔۔۔  
دن کے اختتام پر خالہ کے گھر پہنچ کر خط کھولا تو متن پڑھتے ہی میرا دل دھک سے رہ گیا یہ صادق کے کسی دوست فاروق کا خط تھا جس نے لکھا تھا کہ صادق کو کسی ناکردہ جرم میں گرفتار کرلیا گیا ہے اور ساتھ ہی تسلی بھی دی کہ سفارتخانے والے اس کے کیس کو دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ انشاءاللہ اسے سزا نہیں ہوگی ۔۔۔۔ میرے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ خالہ کو یہ خط سنا سکوں ۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں اس خط کو نہ سنانے کا فیصلہ کیا اور خالہ کو بتانے لگا کہ صادق خیریت سے ہے وہ جلد پیسے بھی بھیجے گا اور کچھ ماہ بعد گھر کا چکر بھی لگائے گا۔۔۔۔۔  خالہ سر جھکائے یہ خط سنتی رہیں ۔۔۔۔ بعد ازاں دعائیں دے کر مجھے جانے کی اجازت دے دی۔۔
میں گھر سے نکل ہی رہا تھا کہ پیچھے سے صادق کے والد نے آواز دی دینو پتر ٹھہر تجھے میں دروازے تک رخصت کردوں میں نے جلدی سے کہا خالو جی اس تکلف کی کیا ضرورت ہے۔۔۔  مگر وہ دروازے سے مجھے پکڑ کر باہر لے آئے اور راز داری سے پوچھنے لگے پتر خیر تو ہے۔۔۔۔ آج خط سناتے وقت تیری حالت غیر تھی۔۔۔ میرے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ اصل خط خالو کو سنادیا جائے ۔۔۔ خالو نے بہت خاموشی سے فاروق کا خط سنا پھر بولے پتر تو نے اچھا کیا رشیدہ کو اس بات کا پتہ نہیں لگنے دیا۔۔۔  جانے وہ اس کو برداشت بھی کر پاتی یا نہیں۔۔۔۔۔
پھر بولے پتر کل ڈاکخانہ میں بیٹھ کر سوچ بچار کرتے ہیں ۔۔۔ اگلے روز وہ صبح ہی آن پہنچے میں انہیں اپنے افسر کے پاس لے گیا اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔۔۔۔ باہم مشورے سے طے پایا کہ اس خط کا جواب لکھ کر فاروق سے معلوم کیا جائے کہ اب کیا صورتحال ہے اور اگر فون نمبر ہو تو وہ بھی مانگ لیا جائے ۔۔۔ 
یہ غالباً سن ستر یا اکہتر تھا اس زمانے میں گاؤں تو دور کی بات ہے شہروں میں بھی فون کی سہولت آسانی سے دستیاب نہ تھی۔۔۔۔۔
خیر ہم نے خط لکھ کر بھیجا مگر ہمارا خط وہاں پہنچنے سے پہلے ہی فاروق کا ایک اور خط آگیا کہ صادق کو سات برس کی سزا سنا دی گئی ہے۔۔۔۔ بؤرھے باپ پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔۔۔۔۔وہ دیر تک روتے رہے پھر مجھ سے بولے دینو پتر مجھ پر ایک احسان کردے ۔۔۔۔۔ خالہ کو صادق کی سزا کا پتہ نہیں لگنے دینا۔۔۔۔ تو بس اسی طرح اس کے خطوط پڑھتے رہنا اور جیل سے آنے والے تمام خطوط ہم یہیں دفتر میں پڑھ لیا کریں گے۔۔۔
دن اسی طرح گزرتے رہے میں ہر دس پندرہ دن کے بعد خط لے کر خالہ کے پاس جاتا انہیں خط سناتا اور رخصت ہوجاتا۔۔۔۔ قریب چار برس گزرے ہوں گے صادق کا خط آیا کہ اس کی بقیہ سزا معاف ہوگئی ہے اور دس دن بعد وہ پاکستان آرہا ہے۔۔۔۔ خالو خط سن کر رونے لگے۔۔۔ اسی شام ہم نے خالہ کو یہ خط سنایا۔۔۔۔ آج میں نے چار سال بعد سچ بولا تھا۔۔۔ ٹھیک دسویں روز صادق گھر پہنچ گیا۔۔۔۔ اسے رستے میں سب کچھ سمجھا دیا گیا تھا۔۔۔۔ وہ اور خالہ آپس میں لپٹ کر دیر تک روتے رہے۔۔۔۔ اس روز سارے گاؤں کی عورتیں خالہ کے گھر جمع تھیں ۔۔۔۔ جب سب لوگ رخصت ہوگئے تو میں نے بھی اجازت چاہی۔۔۔ اس وقت خالہ نے ایک ایسی بات کہی کہ میں دنگ رہ گیا۔۔۔وہ روتے ہوئے بولیں ۔۔۔ 
پتر انسان ساری دنیا سے اپنا دکھ اپنی تکلیف چھپا سکتا ہے مگر ماں سے کچھ نہیں چھپتا ۔۔۔۔۔ ایک ماں ہے جو سب کچھ جانتی ہے جب تو نے صادق کا پہلا خط سنایا تھا تو میں سمجھ گئی تھی کہ میرا بیٹا کسی مصیبت میں گرفتار ہوچکا ہے۔۔۔۔ تو مہینے میں دوبار آکر اس کا خط سناتا تھا مگر نہ تیرا لہجہ تیرے الفاظ کا ساتھ دیتا تھا نہ میرا دل کسی خیر کی گواہی دیتا تھا۔۔۔
 مجھے یہ بھی یقین تھا کہ میرا صادق زندہ ہے اور ایک روز مجھ سے ضرور ملے گا۔۔۔۔ جس دن تو نے صادق کے آنے کا خط سنایا مجھے یقین ہوگیا کہ چار برس تک جھوٹ بولتے بولتے آج تو نے سچ بول دیا ہے۔۔۔ اور پھر میں نے تجھ سے یہ خط تین بار سنا۔۔۔۔ مجھے یاد آرہا تھا کہ واقعی چار سال کے دوران سنائے گئے تمام جھوٹے خطوط خالہ نے بس ایک بار ہی سنے تھے۔۔۔۔ آپ ساری دنیا سے جھوٹ بول سکتے ہیں، اپنا دکھ چھپا سکتے ہیں مگر ماں کا دل کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا۔۔۔۔
دین محمد صاحب یہ کہہ کر خاموش ہوگئے ۔۔۔۔ حلوہ پوری آچکی تھی ہم نے اداس دل کے ساتھ ناشتہ شروع کردیا ۔۔۔۔۔ بلا شبہ ہر شخص کی زندگی میں بہت سے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو کریدنے سے سامنے آتے ہیں ۔۔۔۔ دین محمد صاحب نے خالہ رشیدہ کا قصہ سنا کر سب کے دلوں میں ماں کی یاد تازہ کردی تھی۔۔۔۔ الله تعالیٰ تمام ماؤں کو سلامت رکھے اور دین محمد صاحب کی عمر دراز کرے۔۔۔ آمین۔۔۔۔
تحریر : محمود زیدی Mahmood Zaidi
محمود زیدی صاحب کی وال سے

Promise of AI ChatGPT, Chatbots: How much Truth or Falsehood or Marketing Hype

All the information that chat gpt is providing was already on internet and Google. What chatgpt has done is to provide this info using conversation models that select the most important and the most relevant pieces of information that answer your questions by removing the clutter, redundancy, and  keeping the answer within the scope of the question. What is exciting about the model is its remarkable ability in understanding the question and constructing appropriate grammatically correct replies to the question asked. Which is a skill that people master with great deal of education and experience. This ability has brought the computer to near where it can pass or has passed the famous Turing Test proposed by Alan Turing in 1950.