1991-11-09. This photo is just the start of the journey to Brazil whose vivid description and experiences are captured in the following letter by Good Beti to Nice Beti
Good Khala face visible from the peep hole of the ship. She was leaving with her husband and family for Brazil; via Ship first to London and then via aeroplane to Brazil. Standing in front is my father and mother who have come to see-off the family on their foreign affairs posting to Brazil.
1951-12-03 from Qarsam to Nice Beti u2838 WR ED
2838
کراچی سے برازیل براستہ لندن کا سفر
[Transcript of the Air-letter posted from Remington, London]
To:
Syed Ahsan Hyder, M.A.
PIB Colony No 366 [376], Karachi
اچھی نائس
خوش رہو! کئی خط لکھے ۔مگر جہاز سے اترنے کو نہ ملا۔ اور اس لیے وہ سب رہ گئے۔خیال تھا یاد سے ڈال دیں گے مگر یہاں سے یہ کاغذ لفافے ملے ہیں۔اس کے علاوہ دوسرے لفافے نہیں استعمال کرسکتے۔ اب مختصر طریقے سے لکھنا ہوگا۔ نو کی رات کو بارہ بجے ہم کراچی سے رخصت ہوئے۔ بمبئی پہنچے۔ حیدرمیاں آئے تھے تین گھنٹہ تو دور سے باتیں ہوئیں۔ پھر بیت کوششوں سے انہیں جہاز پر بلایا۔ آدھے گھنٹے کےلیے۔ ڈیڑھ سال بعد وہ حصہ زمین دیکھا جہاں کبھی ہمارا وطن تھا۔ پرانی یاد تازہ ہوگئی۔ ابا شدت سے یاد آئے۔اور ہم لوگوں کی شاندار زندگی جو اب خواب ہوکر رہ گئی۔ بمبئی سے عدن پہنچے۔ صبح چار بجے۔ اس وقت سوائے لائٹ کے اور کچھ نظر نہ آرہا تھا۔ایک طرف تو سمندر میں جہاز جگمگا رہے تھےاور دوسری طرف پہاڑ بہت دور تک لائٹ سے دلہن بنا تھا۔ اجالا ہونے پر بنگلے نظر آئے۔ پہاڑ پر عدن بسا ہے۔ عدن کی بندگاہ سجی ہے۔ بہت خوبصورت بنگلہ خوبصورتی سے باغ سمیت پہاڑوں پر نیچے اوپر بنے ہیں۔ کئی دوکانیں کشتیوں پر آئیں۔ سلی ہوئی قمیص چار روپے۔ ریشمی بہترین۔ جائے نماز ۔قالین۔ریشمی مردانہ دستی پانچ روپیہ درجن۔کیمرہ بہت سستے۔ کھلونے۔ جوتے غرض کہ تمام چیزیں۔ سارے جہاز کے لوگوں نے خریداری کی۔ ہم نے بھی کچھ خریدا۔ اور اس کے بعد ہم لوگ عرب کے بہت سے شہر جو کہ بہت دور دور پہاڑوں پر بسے تھے ، دیکھتے ہوئے نہر سوئز پہنچے۔اوہ! نائس سوچنے سے یا تصویر دیکھنے سے کبھی اندازہ نہیں ہوسکتاکہ دنیا میں اس قدر خوبصورت مقامات بھی ہوں گے۔
نہر ندی کی طرح چوڑی۔نہر میں ہمارا جہاز ایسا عجیب معلوم ہورہا تھا۔ نہر کے ایک طرف تو زمین اور کچھ لوہے کا سامان اور کچھ چھوٹے چھوٹے مکان۔ پہاڑیاں تھیں۔ دوسری طرف موٹر کی سڑک ، ریل کی لائن اور تھوڑی تھوڑی دور پر شہر تھے۔ جو کہ بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ ہر بنگلہ میں خوبصورت باغ اور پارک۔اور فوجی بڑے بڑے جہاز۔ کشتی ۔ موٹر بوٹ۔ جنگی جہاز۔ ہمارا جہاز ہر جگہ چار گھنٹے سے زیادہ نہ کھڑا ہوا۔
جبرالٹر پہنچنے سے پیشتر تین دن تک سمندر کی حالت بہت خراب رہی۔ طوفان آکر جاچکا تھا۔ پھر بھی یہ حال ہوا چند لوگوں کے علاوہ جس میں ہم لوگ بھی تھے۔سارے جہاز کے لوگ بیمار ہوگئے۔قہ ، متلی ، چکر۔ ایک دن ہماری طبعیت بھی بہت خراب رہی۔ بس ہر وقت یہ لگتا تھا کہ اب قہ ہوئی یا اب ہوئی۔ جہاز کی یہ حالت تھی جیسے کوئی دو رکابیوں میں جامن رکھ کر بگھارے۔سمجھیں! چوطرفہ ہل رہا تھا۔ کوئی بھی بغیر پکڑے نہیں چل سکتا تھا۔ کرسی پر بیٹھے لوگ الٹ پلٹ ہوجارہے تھے۔ کھانا کھانے کی میز بھی بدل گئی تھی۔سوائے مضبوط پکڑ کر لیٹنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ دو دن تو بہت سخت گذرے۔ اور خدا خدا کرکے 22 دن بعد ساؤتھ ہمپٹن پہنچے۔ جہاز سے اترے ۔ ریل میں انتظام ہوگیا۔بیٹھے اور لندن آکر پہنچے۔ سرکاری کار کئی تھیں۔ ہوٹل آکر پہنچے۔ کھیلے مشین سے ریلے پیروں سے۔ یہاں کے مزدوروں کو قطعی تکلیف نہیں ہوتی۔ہل ، ٹھیلے سامان کی سب مشین سے، چلتے ہوئے گھر بھی دیکھے۔انگلینڈ میں زمین کی کمی کی وجہ سے ریلیں زمین کے اندر چلتی ہیں۔اپنے یہاں کی ٹرام کی طرح جلدی جلدی آتی ہیں۔ زمین کے اندر سیڑھی جاتی ہیںَ چلتی ہوئی سیڑھی۔ مطلب زمین کے اوپر سے سیڑھی پر پاؤں رکھو کھڑے ہوجاؤ۔ وہ سیڑھی تیزی سے چلتی رہتی ہے۔ بس وہ زمین کے نیچے پلیٹ فارم پر پہنچا دیتی ہے۔ وہاں جتنے کا جہاں کا ٹکٹ لینا ہو چھید میں روپیہ ڈال دو۔ ٹکٹ باہر آجاتا ہے۔ اب ریل بہت تیز آواز سے تیزی آتی ہے۔ جلدی سے بیٹھ گئے۔ دروازہ خود سے بند ہوجاتا ہے۔ ہر اسٹیشن پر دروازہ خود کھلتا اور بند ہوتا ہے۔ لندن میں آج ہمارا تیسرا دن ہے۔کل ہم لوگ گھومنے گئے تھے۔ پاکستان آفس گئے۔ وہاں کے ہوٹل میں 24 دن کے بعد گوشت کھایا۔گوشت وہاں حلال تھا ۔ اور گھومنے کا ارادہ تھا مگر ہم لوگ راستہ بھول گئے۔ 2 بجے سے راستہ بھولے شام کو سات بجے اپنے ہوٹل میں پہنچے۔ پاکستان ہوٹل میں کل تمہارے ، دیور ہوئے ہوں گے ، ملے۔شام میں ہمارے کمرے میں آئے تھے اور کل یعنی اتوار کو ہمیں دعوت دے گئے۔کچھ اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھلائیں گے۔ ارادہ ہے جب تک یہاں ہیں پاکستان ہوٹل میں دل بھر کر گوشت کھالیں۔ نہ معلوم پھر کب کھانے کو ملے۔
کل اتوار ہے، اگلے اتوار کو ہم لوگ ہوائی جہاز سے برازیل جائیں گے ۔ پانی کے جہاز سے ۱۴ دن کا راستہ ہے اور ہم لوگ سب کا دل بھر گیا ہے۔ اب ہوائی جہاز کا شوق ہے۔ ہمارے قاضی عیسیٰ صاحب بہت مہربان اور اچھے شخص ہیں۔ سب کی خواہش کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان کی بیوی بہت اچھی اور نیک طبیعت ہیں۔ وہ سب جو ان کے متعلق سنا تھا غلط ہے۔ ہم کو خاص طور پر بہت اچھا سمجھتی ہیں اور بہت محبت سے ملتی ہیں اور اپنے اسٹونو گرافر سے جو کچھ ان کے عزیز ہیں ہماری بہت تعریف کررہی تھیں جو انہوں نے کئی دن بعد ان سے بتایا تھا۔ ہمارے ہوٹل کی چائے بہت بہترین ہوتی ہے۔ کھانا تو خیر انگریزی ہوتا ہے۔ ہمارے جہاز پر بہت آسانی تھی کہ گوشت، مرغی تو ہم نہیں کھاتے ، اس لیے ہمیں روز بیگن، آلو تلا ہوا، بھرتا آلو، مٹر کے دانے ، گاجر، مولی، انڈے شوربہ دار، سب ترکاری ملی ہوئی مسالہ دار الگ تلی ابلی الگ، مکھن جتنا چاہے منگا سکتے تھے۔ روز بدل بدل کر ہر قسم کے پھل میٹھا۔ پانچ وقت چائے ، صبح تین تین انڈے، بسکٹ، نیا توس، مکھن، پھل۔ غرضیکہ روز بدل کر ہر قسم کے اچھے مزیدار کھانے ملتے تھے۔ یہاں تکلیف ہے۔ حیرت انگریزی کھانے ہوتے ہیں ، اچھے ہوتے ہیں مگر ہمیں تو برے لگتے ہیں ۔ بھئی! ہم لوگ پاکستانی ہوٹل جاکر کھانا کھایا کریں گے،وہاں اچھے مرچیدار کھانے ملتے ہیں۔ نائس مرچہ تو ہم لوگ جہاز میں بھی ملا ، تین چار دن تو ہرا ملا پھر سوکھا کھڑے مرچہ سالن میں۔ نام تو وہ لوگ نہیں جانتے تھے نہ سمجھتے تھے۔ اچھی نائس میرا خیال ہے بجائے اس کے کہ میں ہر باتیں ہر ایک کو الگ الگ لکھوں تم یہ تکلیف کرو کہ یہ خط اماں کو بھیج دینا اور حبیبہ کو دکھا دینا۔ حمیدہ نے خواہش سے کہا تھا۔ خدا حافظ۔
فقط
قرسم
نوٹ: خالہ جان ، پھوپھی جان ، آپا طفیل، احسان بھائی سب کو سلام و دعا کہنا۔ بہت خرچہ ہوا ہوگا تم سب کا۔ اور ہمارے رہنے میں جو سب کو تکلیف ہوئی اس کی ہمیں شرمندگی ہے۔افسوس اور شرمندگی کے ہم مفت کے مہمان بنے۔ ہر ایک نے بہت اچھا سلوک کیا اور خرچہ کو برداشت کیا شکریہ۔کوشش تو یہ کریں گےکہ ہر ایک کو خط لکھیں مگر فی الحال تم یہ خط حمیدہ ، قمر ، سلیمان میاں ، عاصمہ بھابھی ان سب کو دکھا کر اماں کو بھیج دینا۔ معاف کرنا تمہیں پڑھنے میں یقینی تکلیف ہوگی۔ ہم ان شاء اللہ برابر خط لکھیں گے۔
From Shah Mohammad Daud
Princes Court Holele
Victoria Road W.8
London
Editors Notes;
Qazi Muhammad Isa served as Ambassador of Pakistan to Brazil from 1951 to 1953. He also was a member of Pakistan delegations to the United Nations in 1950, 1954 and 1974. He was appointed member of the Committee on Minorities in the first Constituent Assembly of Pakistan.
خالو جان مرحوم فارن افئرز محکمے میں ملازم تھے اور ان کی تعینات برازیل کے سفارت خانے میں ھوئی تھی۔ یہ اس سفر کی روداد ھے۔
No comments:
Post a Comment