بادشاہ کا گھوڑا اور انوسٹیگیشن کی نگرانی کے نگران:
بادشاہ سلامت نے شاہی اصطبل کے لیے مہنگا ترین گھوڑا خریدا۔ کچھ دن بعد بادشاہ نے وزیر کے ہمراہ اپنے پسندیدہ گھوڑے کو دیکھنے کے لیے اصطبل کا دورہ کیا اور وزیر کو کہا کہ گھوڑا کمزور ہو رہا ہے ۔ وزیر نے معاملے کی تحقیقات کی اور بادشاہ کو بتایا کہ گھوڑے کا نگران اس کی خوراک میں بدعنوانی کرتا تھا مگر بادشاہ سلامت آپ فکر نہ کریں ہم نے اُس کے اوپر ایک اور نگران مقرر کر دیا ہے جو نگران کی نگرانی کرے گا۔ بادشاہ مطمئن ہو گیا کچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ اصطبل گیا تو دیکھا کہ گھوڑا پہلے صرف کمزور تھا اب بیمار بھی ہے اس نے پھر وزیر کو اصلاح احوال کا کہا وزیر صاحب نے بادشاہ کو رپورٹ دی کہ نگران کے اوپر جو دوسرا نگران مقرر کیا گیا تھا وہ پہلے نگران سے ملا ہوا ہے لہٰذا اب ہم نے سخت کارروائی کرتے ہوئے ایک تیسرا نگران لگا دیا گیا ہے جو دونوں نگرانوں کی کرپشن کو آہنی ہاتھ سے کچل دے گا جیسے جیسے نگرانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا شاہی گھوڑے کی صحت مزید بگڑتی گئی اور ایک دن بادشاہ کو خبر دی گئی کہ گھوڑا مر گیا ہے-
بڑھتا گیا درد جوں جوں دوا کی:
پہلے ہر جرم کے لئے پولیس کا ادارہ تھا- مگر وزیر با تدبیر نے کہا کہ پولیس کرپٹ ہے- چنانچہ اس کی نگرانی کیلئے FIA بنائی گئی- مگر جب احساس ہوا کہ ان میں بھی کرپشن ہے تو اس کی نگرانی کیلئے NAB بنائی گئی- پولیس چرس کی پڑیا ڈال کر جس کو چاہتی ہے پکڑ لیتی ہے اور جس کو چاہتی ہے چھوڑ دیتی ہے چنانچہ اس کی نگرانی کیلئےANF بنائی گئی-
پھر IB میدان میں اتری اور بعد میں کچھ اداروں کا دائرہ کار ملک کے باہر سے ملک کے اندر پھیلا دیا گیا جونکہ وزارت داخلہ کے تحت چلنے والی نگران ایجنسیوں کی نگرانی مقصود تھی- FIA کو سائبر کرائم کی زمہ داری دی گئی مگر ISPR کے تحت ایک اور ادارہ بنا کہ اس کو FIA کی نگرانی پر مامور کر دیا- پھر ہر ادارے نے اپنی اپنی بھی انوسٹیگیشن سیلز بنا لئے کہ وہ عوام کی نگرانی کریں- ٹیکس والے خود بھی ٹیکس چور پکڑنے کی نگرانی کرتے ہیں اور ڈھیر سارے ادارے white collar crime کی تفتیش کے لے بنائے گئے، مثلاً FIA اور ان کے نگران NAB- وزارت صحت نے دوائیوں کی قیمتوں کے ہیر پھیر کو انویسٹیگیٹ اور نگرانی کے لئے DRAP بنائی، واپڈا نے بجلی چور پکڑنے کے لے اپنا انوسٹیگیشن سیل بنایا-، انرجی منسٹری نے گیس کی چوری اور پیٹرول کی چوری کے لئے اپنے اپنے سیل بنائے اور اوگرا اور نیپرا جیسے ادارے بنائے ہیں......... پھر ہم روتے ہیں کہ مافیا بہت سارے ہیں - یاد رہے کہ CCP نام کا ادارہ ان ہی کارٹیلز کی انوسٹیگیشن کے لئے بنا ہے-
پاکستان میں وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو انوسٹیگیشن ایجنسیز بنانے کا ملکہ حاصل ہے ان وزارتوں کے سیکرٹریز کے نیچے بیسیوں ایجنسیز ہیں، کیا ان وزیروں سے کوئی پوچھتا ہے کہ کتنے کرائمز رپورٹ ہوئے، کتنے ملزمان گرفتار ہوئے، کتنے کے مقدمے عدالتوں میں بھیجے گئے، کتنوں کو سزا ہوئی اور کتنوں کو سزا نہیں ہوئی- جن کو سزا نہیں ہوئی اس کی تفتیش میں کیا کمزوری تھی، اور اس کمزوری کو کیسے دور کیا جارہا ہے - کیا یہی سوال ہر ادارے سے منسٹری پوچھتی ہے-
ایک بڑا مسئلہ overlapping jurisdiction کا ہے جس کی وجہ سے ایک ادارہ دوسرے کے ساتھ پنگ پانگ کھیلتا رہتا ہے- کون سے کرائمز کس ادارے کی زمہ داری ہیں- بالکل اسی طرح سے جیسے FIR درج کرنے کیلیئے آپ ایک تھانہ سے دوسرے تھانے بھاگتے رہتے ہیں، اور سرکاری کام کے لئے ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ، اور ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی-
اس کے علاوہ مسئلہ Investigation vs enforcement کا بھی ہے- اس overlap سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں- اینفورسمنٹ کی غلطی انوسٹیگیشن پر انوسٹیگیشن کی غلطی اینفرسمنٹ پر-
پہلے بین الاقوامی جاسوسی منسٹری آف ڈیفینس کے تحت اور تمام ملکی انوسٹیگیشنز منسٹری آف انٹیرئر وزارت داخلہ کے تحت - اب یہ distinction بھی ختم ہو گئی ہے- کون سی کس کے تحت ہے، یہ کسی کو نہیں معلوم -
چسٹس ثاقب نثار نے JIT بنا کر ایک اور complexity پیدا کر دی- اب سب کی زمہ داری ایک ٹیم کے پاس ہے-
you scratch my back, I scratch yours.
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اغوا کاروں کو پکڑنے والا ادارہ کون سا ہے؟
بادشاہ سلامت نے شاہی اصطبل کے لیے مہنگا ترین گھوڑا خریدا۔ کچھ دن بعد بادشاہ نے وزیر کے ہمراہ اپنے پسندیدہ گھوڑے کو دیکھنے کے لیے اصطبل کا دورہ کیا اور وزیر کو کہا کہ گھوڑا کمزور ہو رہا ہے ۔ وزیر نے معاملے کی تحقیقات کی اور بادشاہ کو بتایا کہ گھوڑے کا نگران اس کی خوراک میں بدعنوانی کرتا تھا مگر بادشاہ سلامت آپ فکر نہ کریں ہم نے اُس کے اوپر ایک اور نگران مقرر کر دیا ہے جو نگران کی نگرانی کرے گا۔ بادشاہ مطمئن ہو گیا کچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ اصطبل گیا تو دیکھا کہ گھوڑا پہلے صرف کمزور تھا اب بیمار بھی ہے اس نے پھر وزیر کو اصلاح احوال کا کہا وزیر صاحب نے بادشاہ کو رپورٹ دی کہ نگران کے اوپر جو دوسرا نگران مقرر کیا گیا تھا وہ پہلے نگران سے ملا ہوا ہے لہٰذا اب ہم نے سخت کارروائی کرتے ہوئے ایک تیسرا نگران لگا دیا گیا ہے جو دونوں نگرانوں کی کرپشن کو آہنی ہاتھ سے کچل دے گا جیسے جیسے نگرانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا شاہی گھوڑے کی صحت مزید بگڑتی گئی اور ایک دن بادشاہ کو خبر دی گئی کہ گھوڑا مر گیا ہے-
Add caption |
بڑھتا گیا درد جوں جوں دوا کی:
پہلے ہر جرم کے لئے پولیس کا ادارہ تھا- مگر وزیر با تدبیر نے کہا کہ پولیس کرپٹ ہے- چنانچہ اس کی نگرانی کیلئے FIA بنائی گئی- مگر جب احساس ہوا کہ ان میں بھی کرپشن ہے تو اس کی نگرانی کیلئے NAB بنائی گئی- پولیس چرس کی پڑیا ڈال کر جس کو چاہتی ہے پکڑ لیتی ہے اور جس کو چاہتی ہے چھوڑ دیتی ہے چنانچہ اس کی نگرانی کیلئےANF بنائی گئی-
پھر IB میدان میں اتری اور بعد میں کچھ اداروں کا دائرہ کار ملک کے باہر سے ملک کے اندر پھیلا دیا گیا جونکہ وزارت داخلہ کے تحت چلنے والی نگران ایجنسیوں کی نگرانی مقصود تھی- FIA کو سائبر کرائم کی زمہ داری دی گئی مگر ISPR کے تحت ایک اور ادارہ بنا کہ اس کو FIA کی نگرانی پر مامور کر دیا- پھر ہر ادارے نے اپنی اپنی بھی انوسٹیگیشن سیلز بنا لئے کہ وہ عوام کی نگرانی کریں- ٹیکس والے خود بھی ٹیکس چور پکڑنے کی نگرانی کرتے ہیں اور ڈھیر سارے ادارے white collar crime کی تفتیش کے لے بنائے گئے، مثلاً FIA اور ان کے نگران NAB- وزارت صحت نے دوائیوں کی قیمتوں کے ہیر پھیر کو انویسٹیگیٹ اور نگرانی کے لئے DRAP بنائی، واپڈا نے بجلی چور پکڑنے کے لے اپنا انوسٹیگیشن سیل بنایا-، انرجی منسٹری نے گیس کی چوری اور پیٹرول کی چوری کے لئے اپنے اپنے سیل بنائے اور اوگرا اور نیپرا جیسے ادارے بنائے ہیں......... پھر ہم روتے ہیں کہ مافیا بہت سارے ہیں - یاد رہے کہ CCP نام کا ادارہ ان ہی کارٹیلز کی انوسٹیگیشن کے لئے بنا ہے-
پاکستان میں وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو انوسٹیگیشن ایجنسیز بنانے کا ملکہ حاصل ہے ان وزارتوں کے سیکرٹریز کے نیچے بیسیوں ایجنسیز ہیں، کیا ان وزیروں سے کوئی پوچھتا ہے کہ کتنے کرائمز رپورٹ ہوئے، کتنے ملزمان گرفتار ہوئے، کتنے کے مقدمے عدالتوں میں بھیجے گئے، کتنوں کو سزا ہوئی اور کتنوں کو سزا نہیں ہوئی- جن کو سزا نہیں ہوئی اس کی تفتیش میں کیا کمزوری تھی، اور اس کمزوری کو کیسے دور کیا جارہا ہے - کیا یہی سوال ہر ادارے سے منسٹری پوچھتی ہے-
ایک بڑا مسئلہ overlapping jurisdiction کا ہے جس کی وجہ سے ایک ادارہ دوسرے کے ساتھ پنگ پانگ کھیلتا رہتا ہے- کون سے کرائمز کس ادارے کی زمہ داری ہیں- بالکل اسی طرح سے جیسے FIR درج کرنے کیلیئے آپ ایک تھانہ سے دوسرے تھانے بھاگتے رہتے ہیں، اور سرکاری کام کے لئے ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ، اور ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی-
اس کے علاوہ مسئلہ Investigation vs enforcement کا بھی ہے- اس overlap سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں- اینفورسمنٹ کی غلطی انوسٹیگیشن پر انوسٹیگیشن کی غلطی اینفرسمنٹ پر-
پہلے بین الاقوامی جاسوسی منسٹری آف ڈیفینس کے تحت اور تمام ملکی انوسٹیگیشنز منسٹری آف انٹیرئر وزارت داخلہ کے تحت - اب یہ distinction بھی ختم ہو گئی ہے- کون سی کس کے تحت ہے، یہ کسی کو نہیں معلوم -
چسٹس ثاقب نثار نے JIT بنا کر ایک اور complexity پیدا کر دی- اب سب کی زمہ داری ایک ٹیم کے پاس ہے-
you scratch my back, I scratch yours.
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اغوا کاروں کو پکڑنے والا ادارہ کون سا ہے؟
Constitutional corruption has created the Incompetence of the "competent authorities" of Ministry of Interior and Ministry of Defense in not being able to monitor, manage, delegate, differentiate, distribute the responsibilities among zillions of investigation and law enforcement agencies and also the incompetence in establishing transparency and accountability.
There is a maze of LEAs and investigation agencies: Police, IB, NAB, Ehtisab Bureau, ISI, ISPR, MI, FIA, NCD (Narcotics Control Division), ANF (Anti Narcotic Force), Elite Force (Commandos Punjab), ATF (Anti-Terrorism Force), BC (Baluchistan Constabulary), FC (Frontier Corps), CB (Crime Branch), SB (Special Branch), Rangers in Sindh, CID (Criminal Investigation Division), CIA (Criminal Investigation Agency), CLC (Car Lifting Cell, Khi)......
اس کے علاوہ کئی انویسٹیگیشن سیلز مختلف اداروں میں بھی ہیں مثلا FBR، پاکستان سروے، واپڈا، وزارت صحت، CCP, army, navy, air force، وغیرہ وغیرہ
No comments:
Post a Comment