Asad Umar putting up a great fight against the vested interests in the country, and IK buckling under pressure is a very simplistic explanation of a more fundamental issue plaguing our governance: The fundamental issue at stake is the debunking of the fallacious assumption that "corruption is the primary reason for our economic downslide". Asad Umar's economic performance demonstrates the negation of this fallacious assumption. Corruption is not the cause, but "incompetence" of the Competent Authority is the primary cause of our economic downslide. Corruption is only a symptom but definitely not the cause. Hence, presence of smart, forthright but incompetent leaders has further plunged the country into an abyss.
Inspiration to Leadership, Lessons from Life, School/Higher Education, Parental Counseling, IT, Student Counseling.
Thursday, April 25, 2019
Sunday, April 14, 2019
Iqbal and Ahmedis and Qadianis
ایک پوسٹ کے جواب میں، جس میں قادیانیوں کی حمایت کی بو محسوس ہوئی،
چند نکات پیش کررہا ہوں، امید ہے ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے، حالاں کہ قادیانیوں کے معاملے پر مجھے یا ملت اسلامیہ پاکستان کو مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں، کہ انہیں ملک کا اعلی ترین ادارہ پارلیمنٹ غیر مسلم قرار دے چکا ہے۔ سو عوام کی اجتماعی دانش پر آپ کا سوال اٹھانا سمجھ سے بالا تر ہے-
چند نکات پیش کررہا ہوں، امید ہے ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے، حالاں کہ قادیانیوں کے معاملے پر مجھے یا ملت اسلامیہ پاکستان کو مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں، کہ انہیں ملک کا اعلی ترین ادارہ پارلیمنٹ غیر مسلم قرار دے چکا ہے۔ سو عوام کی اجتماعی دانش پر آپ کا سوال اٹھانا سمجھ سے بالا تر ہے-
علامہ اقبال نے 1902ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ:
اے کہ بعداز تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک
بزم را روشن ز نور شمع عرفان کردہ
اے کہ بعداز تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک
بزم را روشن ز نور شمع عرفان کردہ
’’سرور رفتہ‘‘ میں صفحہ 30 پرغلام رسول مہر نے ایک نوٹ میں کہا ہے کہ یہ 1902ء کا کلام ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لکھنے کی ضرورت مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ بروزیت کی بنا پر ہوئی۔ یعنی کہتے ہیں کہ تیرے بعد نبوت کا دعویٰ ہر لحاظ سے شرک فی النبوت ہے۔ خواہ اس کا مفہوم کوئی ہو۔ یعنی ظلی اور بروزی نبوت بھی اس سے باہر نہیں۔
1903ء کے انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ’’فریاد امت‘‘ منعقدہ مارچ 1903ء میں اقبال نے ایک نظم پڑھی جس کا دوسرا عنوان ا برگہربار تھا۔ اس میں انہوں نے یہ شعر پڑھا۔
مجھ کو انکار نہیں آمد مہدی سے مگر
غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا
مجھ کو انکار نہیں آمد مہدی سے مگر
غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا
1914ء …میں اقبال نے لکھا کہ قادیانی جماعت نبی اکرم ؐ کے بعد نبوت کی قائل ہے تو ہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
1915ء …میں رموز بے خودی شائع ہوئی۔ اقبال نے عقیدہ ختم نبوت کا واشگاف اعلان کیا:
پس خدا برماشریعت ختم کرو بررسول ما رسالت ختم کرو
لا نبی بعدی ز احسان خدا است پردہ ناموس دین مصطفی است
حق تعالیٰ نقش ہر دعویٰ شکست تا ابد اسلام را شیرازہ بست
پس خدا برماشریعت ختم کرو بررسول ما رسالت ختم کرو
لا نبی بعدی ز احسان خدا است پردہ ناموس دین مصطفی است
حق تعالیٰ نقش ہر دعویٰ شکست تا ابد اسلام را شیرازہ بست
اقبال نے 1916ء میں ایک بیان میں کہا: ’’جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے نبی کا قائل ہوجس کا انکار مستلزم کفر ہو تووہ خارج از اسلام ہوگا۔ اگر قادیانی جماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘۔
1935ء…اقبال نے ضرب کلیم میں اپنی نظم جہاد میں قادیانیوں پر تنقید کی:
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر
پس چہ باید کرد 1936ء میں شائع ہوئی۔ اقبال لکھتے ہیں:
عصر من پیغمبرے ہم آفرید
آنکہ در قرآں بغیر از خود ندید
عصر من پیغمبرے ہم آفرید
آنکہ در قرآں بغیر از خود ندید
شیخ او مرد فرنگی را مرید
گرچہ گوید از مقام بایزید
گرچہ گوید از مقام بایزید
گفت دیں را رونق ز محکومی است
زندگانی از خودی محرومی است
زندگانی از خودی محرومی است
دولت اغیار را رحمت شمرد
رقص ہا گرد کلیسا کرد و مرد
رقص ہا گرد کلیسا کرد و مرد
اقبال نے نہرو کو جو خط کا جواب دیا اس کے مندرجات بھی ملاحظہ فرمائیں-
اقبال نے اپنی ایک بیان میں نہایت مضبوط اور قطعی لہجے میں مرزائیت کے باطل ہونے کا اعلان کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی قرار دیا اور انہیں اسلام اور ہندوستان کا غدار قرار دیا۔
اس پر پنڈت نہرو نے اقبال کے نام خط لکھا، جس میں کہا کہ یہ تو مولویوں کا ایشو ہے، آپ جیسا سمجھدار، پڑھا لکھا شخص کس طرح ایسی سخت بات کر سکتا ہے قادیانی حضرات کے بارے میں ، اس پر نظر ثانی کریں۔ اقبال نے جوابی خط میں تین باتیں کہیں:
پہلے تو یہ لکھا کہ آپ لوگ یعنی ہندو، نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے ، اندازہ بھی نہیں آپ لوگوں کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے۔
دوسرا رسالت اسلام کا مرکزی عقیدہ ہے، جو ختم نبوت کا قائل نہیں، وہ کافر ہے ۔
تیسری بات یہ کہ معاملہ آج کا نہیں، آج تو ہم لوگ مرزائیت کے حوالے سے دھوکا نہیں کھائیں گے، معاملہ مستقبل کا ہے۔
اگر آج اسے یعنی قادیانی گروہ کو دوسرے مسلمانوں سے الگ نہ کیا گیا تو پچاس سال بعد بہت لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں
از افادات ڈاکٹر وحید عشرت، محمد عامر ہاشم خاکوانی
اقبال نے اپنی ایک بیان میں نہایت مضبوط اور قطعی لہجے میں مرزائیت کے باطل ہونے کا اعلان کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی قرار دیا اور انہیں اسلام اور ہندوستان کا غدار قرار دیا۔
اس پر پنڈت نہرو نے اقبال کے نام خط لکھا، جس میں کہا کہ یہ تو مولویوں کا ایشو ہے، آپ جیسا سمجھدار، پڑھا لکھا شخص کس طرح ایسی سخت بات کر سکتا ہے قادیانی حضرات کے بارے میں ، اس پر نظر ثانی کریں۔ اقبال نے جوابی خط میں تین باتیں کہیں:
پہلے تو یہ لکھا کہ آپ لوگ یعنی ہندو، نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے ، اندازہ بھی نہیں آپ لوگوں کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے۔
دوسرا رسالت اسلام کا مرکزی عقیدہ ہے، جو ختم نبوت کا قائل نہیں، وہ کافر ہے ۔
تیسری بات یہ کہ معاملہ آج کا نہیں، آج تو ہم لوگ مرزائیت کے حوالے سے دھوکا نہیں کھائیں گے، معاملہ مستقبل کا ہے۔
اگر آج اسے یعنی قادیانی گروہ کو دوسرے مسلمانوں سے الگ نہ کیا گیا تو پچاس سال بعد بہت لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں
از افادات ڈاکٹر وحید عشرت، محمد عامر ہاشم خاکوانی
ابھی صرف اقبال کے حوالے سے گزارشات کی ہیں، امید ہے اس پر سوچ بچار فرمائیں گے- اقبال مولوی نہیں تھے- اس وطن کا خواب انہی کا مرہونِ منت ہے۔ کہیں گے تو پھر یحییٰ بختیار کی قومی اسمبلی میں تقریر بھی شیئر کردوں- وہ بھٹو صاحب کی پارٹی کی اکثریت والی اسمبلی تھی۔ بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی والے بھی مولوی نہیں تھے۔
Copied from the net
Copied from the net
Tuesday, April 9, 2019
Judicial Murder of Bhutto: Political Engineering and Bench-Fixing of SC and LHC bench
"Bench Fixing" by CJP Anwarul Haq was responsible for the judicial murder of Zulfiqar Ali Bhutto in 1979.
بھٹو کیوں ذندہ ہے
Why Bhutto is alive? Bhutto is alive because of the political engineering and "bench-fixing" that led to the (1) removal of PMs, (2) violation of the constitution and law, and (3) manipulation of judicial benches is alive and kicking in Pakistan as it happened with ZAB during 1977-99 leading to the execution of Bhutto on 4th April 1979, 40 years ago. DoN (Doctrine of Necessity) dictators in cahoot with weak and spineless judges continue to play the charade since the 1950s to usurp power and to serve their vested interests through politically engineered premature terminations of 16 civilian prime ministers, which also includes the judicial murder of ZAB (Zulfiqar Ali Bhutto).DoN (Doctrine of Necessity) godfather Dictator Gen Zia usurps power on July 5,1977: He proclaims martial law, violates and shreds the constitution, imprisons ZAB using the doctrine of necessity, and makes a travesty of law and justice. He then appeases the judges by appointing them as the provincial chief justices as ceremonial governors of their provinces. He then starts to mutilate the constitution by adding and removing clauses at will. Using such alterations, he removes two clauses of the constitution which enabled him to remove the incumbent CJP Justice Yaqub. He then replaces Justice Yaqub with Justice Anwarul Haq who harbored a grudge against Bhutto because he had superseded him with Justice Yaqub when he was elevated as CJP. He then installed Molvi Mushtaq as Chief Justice Lahore High Court. Interestingly enough he too harbored a grudge against Bhutto.
General Zia then went on to politically engineer the Lahore High Court bench and Supreme Court bench with judges of his choice. In doing so he excluded the independent-minded judges from the benches. He removed the judges whom he feared were moving towards an independent view as ascertained from their remarks. The SC bench of 9 hearing Bhutto's case was then artificially reduced to 7 judges. ZAB was hanged by a 4-3 decision with 4 judges from Punjab in favor of hanging against 3 judges from minority provinces who were not in favor. The agreed-upon judgment drafted by judges was changed, records tampered, witnesses' statements and evidence were altered, ignored,... .
A fit case to be labeled as judicial murder with a notorious judgment that no one has cited since or has ever been used as a precedent in any court of law...
A fit case to be labeled as judicial murder with a notorious judgment that no one has cited since or has ever been used as a precedent in any court of law...
[Source: See Hamid Khan's "A History of the Judiciary in Pakistan", OUP, 2016 for details of each of these points.]
See Also:
- DoN godfathers Bench-Fixing and Political Engineering of the SC Bench to Obtain Doctrine of Necessity Judgement
See Also:
Subscribe to:
Posts (Atom)