Monday, March 23, 2020

Ferozesons Children Urdu Novels Translated from English Novels

I would like to know if you can identify which of these books are translations of which authors of English books.
What a wonderful time that I spent with these books. I read them in Urdu before I read them in English later on. Once upon a time I used to have a collection of all these Frerozesons books that are mentioned here. I was a proud owner of "Millat Library" during early 1970s with a collection of hundreds of books that I used to rent out at 10paisa/book/day. Here are some of the translations that I have identified. Please fill the remaining ones in the comments if you can identify. I think many of these were translations of Franklin W Dixon's Hardy Boys series. At one time I recognized at least seven of these.



Please help me in identifying the books from which these Ferozesons Urdu books were translated:

Enid Blyton's Adventure series? نیلا طوطا
Enid Blyton's Secret of the Moon Castle - اونچی حویلی کا راز
Author, Book?: ویران محل
Franklin W Dixon's Hardy Boys Series: Mystery of the Desert Giants - صحرا کے دیو
Anthony Buckeridge (1912–2004) Jennings series: ننھے شیطان، ننھے شیطان کی واپسی...
Hardy Boys?نیلی روشنی کا راز
ٖFranklin W Dixon's Hardy Boys Series, name of book? حجام جاسوس
Author, Book? عمران کے کارنامے: پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا
Author, Book? کامران سیریز کی تین کتب، کامران اور شاہی خنجر...
HG Wells’ War of the Worlds by HG Wells: مریخ کا حملہ
Arthur Conan Doyle's The Lost World: مترجم سعید رضا سعیدان دیکھی دنیا ۔
Charles Dickens' A Tale of Two Cities: خون کی ہیولی
Charles Dickens' Olive Twist: گرہ کٹ
RD Blackmore's Lorna Doone: قزاقوں کی وادی
Sir Henry Rider Haggard's King Solomon Mines: سلیمانی خزانہ
Author, Book?ٓ کالا ناگ
Author, Book? رابن ہڈ
Nikolai Gogol's Taras Bulba (تارس بلبا)
Author, Book? راز یوسفی کی دو یتیم
Mark Twain's Adventures of Tom Sawyers: بھیانک غار
Author, Book? سونے کا بت
Author, Book?چار دوستوں کا حیرت انگیز سفر
Author, Book? یک سپاھی کی کہانی
Author, Book? موت کی شعاع
Franklin W Dixon's Secret of the Old Mill in Hard Boys Series: ہولناک سازش
Author, Book? جابر خان
Author, Book? ناگ کا نشان
Hardy Boys? ہیروں کے چور
Author, Book? کیا وہ چور تھا
Jules Verne's 20000 Leagues Under the Sea: پراسرار آبدوز
Jules Verne's
Author, Book? اندھیرا غار
Author, Book? چاندی کے چور
Charles Dickens' Great Expectations: قیدی
Author, Book? شاہین اور دشمن درندے
Jonathan Swift's Gulliver's Travels: بونے اور دیو
ٖFranklin W Dixon, Hardy Boys Series novel ?ہاتھی دانت کے چور
Author, Book? سونے کی وادی
Author, Book? ننھے سراغ رساں
Author, Book? وہ کیا راز تھا
Author, Book? بھوت بنگلا
HG Wells' Invisible Man غیبی انسان
Author, Book? گوریلا
RL Stevenson's Treasure Island: خزانے کا راز
Author, Book? پانچ لاکھ
Author, Book? سندربن کا خزانہ
Author, Book? چھنگلو میاں کے کارنامے؟؟
Author, Book? شاہین کی واپسی؟؟
Author, Book? دشمن کی سازش؟؟
Enid Blyton's River of Adventure: نیلا طوطا
Ursula Van Waiz (spelling?), Book? سرکس کا ھاتھی
HG Wells’ First Man on the Moon: چاند پر پہلا آدمی
Author, Book? زندہ لاشیں؟؟
Hardy Boys? کالا جزیرہ
Author, Book? نورا؟؟؟
Franklin W Dixon's The Haunted Fort in Hardy Boys Series: منحوس قلعہ مترجم؟
Author, Book? کالا ناگ؟؟
Author, Book? چمایٗ کا مندر؟؟
Daniel Defoe's Robinson Crusoe: رابن سن کروسو
Author, Book? ایک ٹانگ کا آدمی ؟؟؟
Author, Book? دلاور؟؟
Author, Book? کلیم کےکارنامے
Enid Blyton's Five on a Treasure Island: طوفانی جزیرہ

This blog post was inspired from the following post on Facebook:

پاکستان میں بچوں کا ادب از قلم احمد عدنان طارق

پاکستان بننے کے فوراً بعد جب بچوں کی کہانیوں کی پہلی کتابیں شائع ہونی شروع ہوئیں تو پڑھے لکھے لوگوں خواہ وہ ہندوستان میں مقیم تھے یا پاکستان میں وہ بخوبی " اینڈ بلٹن" کے نام کو جانتے تھے ۔ وہ اینڈ بلٹن کے بارے میں صرف یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک خاتون بچوں کی مصنفہ تھیں یا یہ کہ وہ 1926 میں انتقال کر گئی تھیں ۔ بلکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ بچوں کے لئے آٹھ سو کتابیں تحریر کرکے اس جہان فانی سے رخصت ہوئی تھیں اور آج بھی دنیا کے چھبیس ممالک میں ان کتابوں کی اشاعت پر ملنے والی رائلٹی سے بچوں کی فلاح بہبود کے کام کئے جا رہے ہیں ۔ اس لئے اگرچہ پاکستانی بچوں کے مصنفین نے بے شک مقابلتاً تھوڑا دیر سے سہی لیکن کام ضرور کیا ۔
ان کی ایڈوینچر سیریز کے ناول "River of Adventure" کو سید ذاکر اعجاز نے اردو زبان میں "دیوی کا خزانہ" کے نام سے ڈحالا ۔ ان کے مشہور ناول secret of moon castle" کو محترم احمد سعید صاحب نے "اونچی حویلی کا راز " کے نام سے مشرف با اردو کیا ۔ ان کے ناول "six bad boys" کو محترم آفتاب احمد صاحب نے "چھ برے لڑکے" کے نام سے اردو میں اختیار کیا ۔ محترم ابراہیم رامے نے اینڈ بلٹن کے ایک ناول کو خفیہ جزیرے کا نام دیا اور یہ اردو میں اختیار کئے ناول اتنے خوبصورت اور مزے کے تھے کہ مجھ سمیت تب کے بچے اور آج کے بوڑھے ان بچوں کے ناولوں کے طلسم سے نہیں نکل سکتے ۔ یہ تمام ناول ستر کی دہائی میں فیروز سنز نے چھاپے ۔ بچوں کے ادب پر جس پبلشر نے قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا احسان کیا ہے وہ فیروز سنز ہی تو ہے ۔


انگریزی کی کلاسک داستانیں اور ہیرو قیام پاکستان کے فوراً بعد بچوں میں مشہور ہونا شروع ہو گئے تھے اور ابھی بھی رہنا چاہئیں کیونکہ اتنے سال گذرنے کے بعد بھی ہم سب مصنفین مل کر بھی کوئی پاکستانی ہیرو بچوں میں پیدا کر نہیں سکے جسے ہم ٹارزن ۔ حاتم طائی ۔ امیر حمزہ یا عمرو عیار کے پائے کا کہہ سکیں ۔ ٹارزن صاحب اگر انگلستان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کو ایڈ گر رائس برو نے تخلیق کیا تھا تو باقی حضرات کا تعلق عربی زبان کی کہانیوں سے تھا ۔ ٹارزن کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں ہوا ہوگا لیکن جو کمال محترم مقبول جہانگیر صاحب نے اردو میں دکھایا شائد اسکا کوئی ثانی نہیں ۔ جنگل کی کہانیوں میں مقبول جہانگیر صاحب نے افریقن ایڈونچر کو "افریقہ کے جنگلوں میں " کے نام سے اردو میں لکھا اور وئرڈ ہرائس کے افریقن ایڈونچر کو اپنے ناول "خونی بستی" کے نام سے اردو پڑھنے والے بچوں تک پہنچایا۔
وئرڈ ہرائس کے باقی جنگل کے ناولوں کو محمد یونس حسرت صاحب نے "خونی جنگل" "خونی مقابلہ" کے نام سے ڈھالا تو ہمارے اپنے اشتیاق احمد مرحوم نے بھی جو ترجمہ نہیں کرتے تھے ایک ناول "خونی دیوتا" کے نام سے بچوں کو اردو میں لکھ کر دے دیا۔ پھر انگریزی زبان میں بچوں کی مشہور ناولوں کی سیریز "three investigators" کو ہمارے بچوں میں مقبول جہانگیر صاحب نے تین ننھے سراغرساں کے نام سے تیرہ ناولوں میں لکھا ان ناولوں میں سے بیشتر مقبول جہانگیر صاحب کے تھے جبکہ ان میں سے ایک دو "سلیم احمد صدیقی صاحب" نے ترجمہ کئے تھے ۔


یہی مقبول جہانگیر تھے جنہوں نے سن رائز پبلی کیشنز کی وساطت سے مشہور فرانسیسی ناول نگار " مائی بھوبھتی" کے نام "ڈاکٹر نکولا" جو انگریزی زبان میں زبان زدعام تھا بچوں کے لئے دو ناولوں میں لکھا ۔ محترم سلیم احمد صدیقی کا ذکر بار بار آ رہا ہے تو حال ہی میں ریلیز ہونے والی بچوں کی پسندیدہ فلم "hail the kong" کے ہیرو کنگ کانگ کو انتہائی خوش اسلوبی سے بچوں کے لئے "کنگ کانگ" کے نام سے ناول کا روپ دیا ۔ پبلشر جانے پہچانے تھے یعنی فیروز سنز۔
آج ہم ہر دوسرے سال اپنے بچوں کے ساتھ سپرمین سیریز کی نئی فلم دیکھتے ہیں یہ کالک ہیرو سے adapt کی ہوئیں فلمیں ہمیں بھی بھاتی ہیں اور بچوں کو بھی ۔ لیکن ہماری سپر مین سے ہمارے بچپن میں ملاقات ہمارے پسندیدہ ادیب "محمد یونس حسرت" صاحب نے کروائی تھی ۔ انہوں نے سپر مین کا اردو نام رکھا تھا "ارژنگ" اور تین ناولوں میں ارژنگ کو ہم سے روشناس کروایا تھا آج بچے جو آنکھوں سے دیکھتے ہیں ہمارے پسندیدہ ادیب ان ہیروز کو کہانیوں کے ذریعے ہمارے لا شعور میں بٹھا دیا کرتے تھے.


"ان دیکھی دنیا" مصنف کا نام تھا "سعید رضا سعید" صاحب ۔ یہ ناول ڈائنو سارز کے بارے میں تھا اور انگریزی کے ناول " unseen world" کا ترجمہ تھا جو سر آرتھر کونن ڈائل نے لکھا تھا ۔یوں ان ترجموں کے صدقے میں آٹھ سال کی عمر میں تاندلیانوالہ میں ڈائنوسارز سے متعارف ہو چکا تھا ۔ جن سے پاکستانی بچوں کی اکثریت 1995 میں فلم "Jurasic Park" دیکھ کر متعارف ہوئی ۔ میں نے وینڈی کوپر کا نام "the cat strikes at night" پڑھ کر جانا تھا لیکن تب تو میں انگریزی جانتا ہی نہیں تھا کیونکہ میں پانچویں جماعت میں تھا اور میں نے انگریزی چھٹی جماعت میں پڑھنی شروع کی تھی وینڈی کوپر کو میں نے " سید ذاکر اعجاز" صاحب کی وساطت سے جانا جنہوں نے " چھاپا مار بلا" کے نام سے اس ناول کا ترجمہ کیا میں نے رائیڈر ہیگرڈ کے ناول "King Solomon Mines" کا ترجمہ "سلیم الرحمن" کی زبانی سلیمانی خزانہ کی صورت میں پڑھا ۔


میں نے اسی عظیم ناول نگار کا عظیم ناول "she" کو محترم ذوالفقار احمد تابش کی زبانی پڑھا۔ایرک کاسٹنر کا ناول کو ابو ضیا اقبال صاحب نے " "چھنگلو میاں کے کارنامے" کے نام سے اردو میں لکھا ۔ " ارسلاوان ویز" کے ناول کو ایک ہمارے اور مایہ ناز ادیب "راز یوسفی" جو زیادہ طبع زاد کام کرتے تھے نے "سرکس کا ہاتھی" کے نام سے بچوں کا کلاسک ناول بچوں کو تحفے میں دیا۔ انہی محترم نے بچوں کو دو اور لازوال ترجمہ شدہ ناول عنائت کئے جن میں سے ایک "جیکسن بونزون" کا نام ""سمترا کے یتیم" تھا ۔ یہ ناول بھی ماخوذ تھا ۔ رائیڈر ہیگرڈ کے ناول "she" کو بعد میں محترم ستار طاہر نے بھی ترجمہ کیا۔
مقبول جہانگیر صاحب نے شرلاک ہومز جیسے کردار کو بھی پاکستانی بچوں میں متعارف کروایا ۔ سب کو معلوم ہے کہ زرلاک ہومز کا کردار سر آرتھر کونن ڈائل کے ذہن کی اختراع تھی لیکن بچے آج بھی شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کو مقبول جہانگیر کے ترجمہ شدہ ناولوں " کبڑا مداری" ناچتی تصویریں اور " ہیرے کی تلاش" میں پڑھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ شرلاک ہومز کوئی پاکستانی کردار ہے اور اس نے تفتیش کی کہانیاں ہماری پولیس سے مستعار لی ہیں ۔ جیمز ہلٹن کے مشہور ناول " لاسٹ ہور آیزن" کی تخلیص و ترجمہ محترم " رفیع الزمان زبیری" صاحب نے " خواب نگر" کے نام سے کیا اور یہ ناول "ہمدرد مطبوعات" نے چھاپا۔ حکیم محمد سعید مرحوم کے اس ادارے نے مسعود احمد برکاتی صاحب کی زیر قیادت اس ضمن میں بہت کام کیا جس کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔ ولیم شیکسپئر کہتے تھے " بچوں کو تعلیم یافتہ کرنا ہے تو انہیں مزید پریوں کی کہانیاں سنائیں۔
ولیم شیکسپئر کی تصنیف "میکبتھ" کو ستار طاہر صاحب نے اسی نام سے اردو میں ڈھالا۔ پبلشر تھے " دوست پبلیکیشنز" رڈیارڈ کہلبنگ کی "جنگل بک" پچھلے دنوں سب بچوں نے بڑے مزے مزے سے دیکھی۔ موگلی اور رکھشا کے کرداروں سے ہمارا تعارف محترم "احفاظ الرحمن"نے کروایا تھا اور ان کے ترجمے کا نام تھا " جنگل کا بادشاہ" میں نے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ فلم دیکھی تو مجھے لگا جیسے میں ان کرداروں کو اپنے بچپن سے جانتا ہوں اور یہ حقیقت ہے میں موگلی اور رکھشا کو بچپن سے جانتا تھا ۔ میں امغاظ الرحمن کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے "نکولائی گوگول" کے مشہور کردار " تارس بلبا" کو مجھ سے روشناس کروا دیا تھا ۔
اس مشہور کردار کو برباد کرنے کی ایک مذموم کوشش ہمارے ہمسایہ ملک نے فلم "ویر" بنا کر کی جس میں ان کے ایک فلمی اداکار متھن چکربورتی نے تارس بلبا بننے کی ناکام کوشش کی ۔ جس سے تارس بلبا پڑھنے والوں کو دلی تکلیف ہوئی بہرکیف بچپن میں تارس بلبا ہمارا پسندیدہ ناول تھا۔ ڈاکٹر احسن فاروقی صاحب نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا اور ایم اے فلاسفی ، ایم اے انگلش اور پی ایچ ڈی (انگلش لٹریچر) کرنے کے بعد اولیور ٹوئسٹ کو ہمارے بچوں کے درمیان لے آئے ان کے ناول کا نام "گرہ کٹ" تھا۔ ان کے تقریباً ہم نام محترم "احسن فرخی" صاحب نے ہماری واقفیت "لورنا ڈون" کے مشہور کردار سے کروائی اور ان کا نام "قزاقوں کی وادی" کے نام سے فیروز سنز نے ستر کی دہائی میں چھاپا۔
ہیرلڈلیم تاریخ لکھنے کا ایک مسند نام ہے ۔ ان کی مشہور داستان "the curveal saber" کو فیروز سنز ادارے کے لئے سید ہادی حسین نے اردو میں بچوں کے لئے "خلت قزاق" کے نام سے لکھا۔ ہیرلڈلیم کی صلیبی جنگوں کے احوال کو بھی "صلیبی جنگیں" کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ ناولوں کے ذریعے جتنی ایجادات کا خیال سائنسدانوں کو " ایچ جی ویلز" کے ناول پڑھ کر آیا شائد کسی اور ناول نگار کے نام اس صف میں نہیں ہے ۔ "چاند پر پہلا آدمی" "مریخ کا حملہ" محترم عباس صاحب نے بچوں کے لئے ایچ جی ویلز کو اردو میں ڈھالا۔
قمر نقوی شکاریات لکھتے لکھتے بچوں کی خدمت " ولیم ڈینو" کے ناول " رابن سن کروسو" کو اسی نام سے اردو میں لکھ کر بچوں کے لئے کر گئے ۔ " جم ہاکس" کے کردار کو پاکستانی بچوں میں "شوکت ہاشمی" صاحب نے " خونی جزیرہ" لکھ کر متعارف کروایا اور شائد سمندری قزاقوں کو بھی ۔ زمانے میں مشہور ناول " اے ٹیل آف ٹو سیٹز " جسے چارلس ڈکنز نے لکھا اور دوامی شہرت پائی بچوں کے لئے انقلاب فرانس پر یہ ناول " خون کی ہولی" کے نام سے بیکم ایچ آئی احمد نے لکھا-
ان کی ایڈوینچر سیریز کے ناول "River of Adventure" کو سید ذاکر اعجاز نے اردو زبان میں "دیوی کا خزانہ" کے نام سے ڈحالا ۔ ان کے مشہور ناول secret of moon castle" کو محترم احمد سعید صاحب نے "اونچی حویلی کا راز " کے نام سے مشرف با اردو کیا ۔ ان کے ناول "six bad boys" کو محترم آفتاب احمد صاحب نے "چھ برے لڑکے" کے نام سے اردو میں اختیار کیا ۔ محترم ابراہیم رامے نے اینڈ بلٹن کے ایک ناول کو خفیہ جزیرے کا نام دیا اور یہ اردو میں اختیار کئے ناول اتنے خوبصورت اور مزے کے تھے کہ مجھ سمیت تب کے بچے اور آج کے بوڑھے ان بچوں کے ناولوں کے طلسم سے نہیں نکل سکتے ۔ یہ تمام ناول ستر کی دہائی میں فیروز سنز نے چھاپے ۔ بچوں کے ادب پر جس پبلشر نے قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا احسان کیا ہے وہ فیروز سنز ہی تو ہے ۔
انگریزی کی کلاسک داستانیں اور ہیرو قیام پاکستان کے فوراً بعد بچوں میں مشہور ہونا شروع ہو گئے تھے اور ابھی بھی رہنا چاہئیں کیونکہ اتنے سال گذرنے کے بعد بھی ہم سب مصنفین مل کر بھی کوئی پاکستانی ہیرو بچوں میں پیدا کر نہیں سکے جسے ہم ٹارزن ۔ حاتم طائی ۔ امیر حمزہ یا عمرو عیار کے پائے کا کہہ سکیں ۔ ٹارزن صاحب اگر انگلستان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کو ایڈ گر رائس برو نے تخلیق کیا تھا تو باقی حضرات کا تعلق عربی زبان کی کہانیوں سے تھا ۔ ٹارز کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں ہوا ہوگا لیکن جو کمال محترم مقبول جہانگیر صاحب نے اردو میں دکھایا شائد اسکا کوئی ثانی نہیں ۔ جنگل کی کہانیوں میں مقبول جہانگیر صاحب نے افریقن ایڈونچر کو "افریقہ کے جنگلوں میں " کے نام سے اردو میں لکھا اور وئرڈ ہرائس کے افریقن ایڈونچر کو اپنے ناول "خونی بستی" کے نام سے اردو پڑھنے والے بچوں تک پہنچایا۔
وئرڈ ہرائس کے باقی جنگل کے ناولوں کو محمد یونس حسرت صاحب نے "خونی جنگل" "خونی مقابلہ" کے نام سے ڈھالا تو ہمارے اپنے اشتیاق احمد مرحوم نے بھی جو ترجمہ نہیں کرتے تھے ایک ناول "خونی دیوتا" کے نام سے بچوں کو اردو میں لکھ کر دے دیا۔ پھر انگریزی زبان میں بچوں کی مشہور ناولوں کی سیریز "three investigators" کو ہمارے بچوں میں مقبول جہانگیر صاحب نے تین ننھے سراغرساں کے نام سے تیرہ ناولوں میں لکھا ان ناولوں میں سے بیشتر مقبول جہانگیر صاحب کے تھے جبکہ ان میں سے ایک دو "سلیم احمد صدیقی صاحب" نے ترجمہ کئے تھے ۔یہی مقبول جہانگیر تھے جنہوں نے سن رائز پبلی کیشنز کی وساطت سے مشہور فرانسیسی ناول نگار " مائی بھوبھتی" کے نام "ڈاکٹر نکولا" جو انگریزی زبان میں زبان زدعام تھا بچوں کے لئے دو ناولوں میں لکھا ۔ محترم سلیم احمد صدیقی کا ذکر بار بار آ رہا ہے تو حال ہی میں ریلیز ہونے والی بچوں کی پسندیدہ فلم "hail the kong" کے ہیرو کنگ کانگ کو انتہائی خوش اسلوبی سے بچوں کے لئے "کنگ کانگ" کے نام سے ناول کا روپ دیا ۔ پبلشر جانے پہچانے تھے یعنی فیروز سنز۔
آج ہم ہر دوسرے سال اپنے بچوں کے ساتھ سپرمین سیریز کی نئی فلم دیکھتے ہیں یہ کالک ہیرو سے adapt کی ہوئیں فلمیں ہمیں بھی بھاتی ہیں اور بچوں کو بھی ۔ لیکن ہماری سپر مین سے ہمارے بچپن میں ملاقات ہمارے پسندیدہ ادیب "محمد یونس حسرت" صاحب نے کروائی تھی ۔ انہوں نے سپر مین کا اردو نام رکھا تھا "ارژنگ" اور تین ناولوں میں ارژنگ کو ہم سے روشناس کروایا تھا آج بچے جو آنکھوں سے دیکھتے ہیں ہمارے پسندیدہ ادیب ان ہیروز کو کہانیوں کے ذریعے ہمارے لا شعور میں بٹھا دیا کرتے تھے"ان دیکھی دنیا" مصنف کا نام تھا "سعید رضا سعید" صاحب ۔ یہ ناول ڈائنو سارز کے بارے میں تھا اور انگریزی کے ناول " unseen world" کا ترجمہ تھا جو سر آرتھر کونن ڈائل نے لکھا تھا ۔یوں ان ترجموں کے صدقے میں آٹھ سال کی عمر میں تاندلیانوالہ میں ڈائنوسارز سے متعارف ہو چکا تھا ۔ جن سے پاکستانی بچوں کی اکثریت 1995 میں فلم "jurasic park" دیکھ کر متعارف ہوئی ۔ میں نے وینڈی کوپر کا نام "the cat strikes at night" پڑھ کر جانا تھا لیکن تب تو میں انگریزی جانتا ہی نہیں تھا کیونکہ میں پانچویں جماعت میں تھا اور میں نے انگریزی چھٹی جماعت میں پڑھنی شروع کی تھی وینڈی کوپر کو میں نے " سید ذاکر اعجاز" صاحب کی وساطت سے جانا جنہوں نے " چھاپا مار بلا" کے نام سے اس ناول کا ترجمہ کیا میں نے رائیڈر ہیگرڈ کے ناول "King Solomon Mines" کا ترجمہ "سلیم الرحمن" کی زبانی سلیمانی خزانہ کی صورت میں پڑھا ۔
میں نے اسی عظیم ناول نگار کا عظیم ناول "she" کو محترم ذوالفقار احمد تابش کی زبانی پڑھا۔ایرک کاسٹنر کا ناول کو ابو ضیا اقبال صاحب نے " "چھنگلو میاں کے کارنامے" کے نام سے اردو میں لکھا ۔ " ارسلاوان ویز" کے ناول کو ایک ہمارے اور مایہ ناز ادیب "راز یوسفی" جو زیادہ طبع زاد کام کرتے تھے نے "سرکس کا ہاتھی" کے نام سے بچوں کا کلاسک ناول بچوں کو تحفے میں دیا۔ انہی محترم نے بچوں کو دو اور لازوال ترجمہ شدہ ناول عنائت کئے جن میں سے ایک "جیکسن بونزون" کا نام ""سمترا کے یتیم" تھا ۔ یہ ناول بھی ماخوذ تھا ۔ رائیڈر ہیگرڈ کے ناول "she" کو بعد میں محترم ستار طاہر نے بھی ترجمہ کیا۔
مقبول جہانگیر صاحب نے شرلاک ہومز جیسے کردار کو بھی پاکستانی بچوں میں متعارف کروایا ۔ سب کو معلوم ہے کہ زرلاک ہومز کا کردار سر آرتھر کونن ڈائل کے ذہن کی اختراع تھی لیکن بچے آج بھی شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کو مقبول جہانگیر کے ترجمہ شدہ ناولوں " کبڑا مداری" ناچتی تصویریں اور " ہیرے کی تلاش" میں پڑھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ شرلاک ہومز کوئی پاکستانی کردار ہے اور اس نے تفتیش کی کہانیاں ہماری پولیس سے مستعار لی ہیں ۔ جیمز ہلٹن کے مشہور ناول " لاسٹ ہور آیزن" کی تخلیص و ترجمہ محترم " رفیع الزمان زبیری" صاحب نے " خواب نگر" کے نام سے کیا اور یہ ناول "ہمدرد مطبوعات" نے چھاپا۔ حکیم محمد سعید مرحوم کے اس ادارے نے مسعود احمد برکاتی صاحب کی زیر قیادت اس ضمن میں بہت کام کیا جس کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔ ولیم شیکسپئر کہتے تھے " بچوں کو تعلیم یافتہ کرنا ہے تو انہیں مزید پریوں کی کہانیاں سنائیں۔
ولیم شیکسپئر کی تصنیف "میکبتھ" کو ستار طاہر صاحب نے اسی نام سے اردو میں ڈھالا۔ پبلشر تھے " دوست پبلیکیشنز" رڈیارڈ کہلبنگ کی "جنگل بک" پچھلے دنوں سب بچوں نے بڑے مزے مزے سے دیکھی۔ موگلی اور رکھشا کے کرداروں سے ہمارا تعارف محترم "احفاظ الرحمن"نے کروایا تھا اور ان کے ترجمے کا نام تھا " جنگل کا بادشاہ" میں نے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ فلم دیکھی تو مجھے لگا جیسے میں ان کرداروں کو اپنے بچپن سے جانتا ہوں اور یہ حقیقت ہے میں موگلی اور رکھشا کو بچپن سے جانتا تھا ۔ میں امغاظ الرحمن کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے "نکولائی گوگول" کے مشہور کردار " تارس بلبا" کو مجھ سے روشناس کروا دیا تھا ۔اس مشہور کردار کو برباد کرنے کی ایک مذموم کوشش ہمارے ہمسایہ ملک نے فلم "ویر" بنا کر کی جس میں ان کے ایک فلمی اداکار متھن چکربورتی نے تارس بلبا بننے کی ناکام کوشش کی ۔ جس سے تارس بلبا پڑھنے والوں کو دلی تکلیف ہوئی بہرکیف بچپن میں تارس بلبا ہمارا پسندیدہ ناول تھا۔ ڈاکٹر احسن فاروقی صاحب نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا اور ایم اے فلاسفی ، ایم اے انگلش اور پی ایچ ڈی (انگلش لٹریچر) کرنے کے بعد اولیور ٹوئسٹ کو ہمارے بچوں کے درمیان لے آئے ان کے ناول کا نام "گرہ کٹ" تھا۔ ان کے تقریباً ہم نام محترم "احسن فرخی" صاحب نے ہماری واقفیت "لورنا ڈون" کے مشہور کردار سے کروائی اور ان کا نام "قزاقوں کی وادی" کے نام سے فیروز سنز نے ستر کی دہائی میں چھاپا۔
ہیرلڈلیم تاریخ لکھنے کا ایک مسند نام ہے ۔ ان کی مشہور داستان "the curveal saber" کو فیروز سنز ادارے کے لئے سید ہادی حسین نے اردو میں بچوں کے لئے "خلت قزاق" کے نام سے لکھا۔ ہیرلڈلیم کی صلیبی جنگوں کے احوال کو بھی "صلیبی جنگیں" کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ ناولوں کے ذریعے جتنی ایجادات کا خیال سائنسدانوں کو " ایچ جی ویلز" کے ناول پڑھ کر آیا شائد کسی اور ناول نگار کے نام اس صف میں نہیں ہے ۔ "چاند پر پہلا آدمی" "مریخ کا حملہ" محترم عباس صاحب نے بچوں کے لئے ایچ جی ویلز کو اردو میں ڈھالا۔
قمر نقوی شکاریات لکھتے لکھتے بچوں کی خدمت " ولیم ڈینو" کے ناول " رابن سن کروسو" کو اسی نام سے اردو میں لکھ کر بچوں کے لئے کر گئے ۔ " جم ہاکس" کے کردار کو پاکستانی بچوں میں "شوکت ہاشمی" صاحب نے " خونی جزیرہ" لکھ کر متعارف کروایا اور شائد سمندری قزاقوں کو بھی ۔ زمانے میں مشہور ناول " اے ٹیل آف ٹو سیٹز " جسے چارلس ڈکنز نے لکھا اور دوامی شہرت پائی بچوں کے لئے انقلاب فرانس پر یہ ناول " خون کی ہولی" کے نام سے بیکم ایچ آئی احمد نے لکھا-

No comments:

Post a Comment